زندگی
ہاں میں نے زندگی کو دیکھا ہے
مجھے کاٹتے ہوۓ
عقل و خرد کے پٹا خے بناتے ہوئے
میں نے محسوس کیا ہے اسے،
رگوں کو درد سے بھرتے ہوئے
دیکھی ہے میں نے اس کی قوت
میرے اندر گہری کھائیاں کھود کر
مجھے بحر بے کراں بناتے ہوئے
اس میں موجیں و طوفان اٹھاتے ہوئے
میں نے دیکھا ہے اسے
تندرست جسموں، آسودہ حالوں کو
بے حال، دھواں دھواں بناتے ہوئے
ملی ہوں اس اپنی رفیق سے میں
میری بے بسی، کرب، آہ و تمنا پہ مسکراتے ہوئے
کبھی میری شعور کی کھڑکیوں کو کھولا ہے اس نے
تو کبھی افلاک کی وسعتوں میں دھکیلا ہے
کبھی باد نسیم کے جھونکوں سے مجھے چھیڑا ہے
کبھی آکر چپ سی بیٹھ جاتی ہے میرے پاس یہ
نہ بولتی، ںہ مسکراتی، نہ بتاتی ہے کہ
میرے پاس یہ کیوں ہے-
بس میری سانسیں مجھے گنواتی ہے
کچھ آوازیں، لمحوں کی آہٹ مجھے سنواتی ہے
حسرتوں و تمنا کے پھول تھما کر
چلی جاتی ہے یہ کہ کر
میں پھر ملوں گی-
آج ملی ہے پھر مجھ سے
ایسے کہ
مجھے جانتی ہی نہیں-
(شہر ذات)
متبسم
اعلٰی
ReplyDeleteماشاءاللہ کمال
ReplyDelete