ہجر
یہ بارشیں اور یہ ہجر جاناں جیسے شکستہ دل اور باہر طوفاں جاناں تمہیں معلوم ہے یہ بارشیں کب ہوتی ہیں جب آسمانوں کو چڑھتے ہیں نالے جاناں نیلگوں میں قطرے میری کھڑکیوں پر لرزتے ہیں تو مجھ میں گردش کرتا ہے اک درد جاناں آج پھر ابر رحمت برسا ہے خدا نے درگزر کیا ہے انساں کو، یا خود سے آشنا جاناں تم نے پوچھا تھا ہمارا ساتھ کیسا ہے، یوں جیسے میرے رب نے مسکرا کر دیکھا ہو جاناں تمہیں سانسوں کی ڈوری ٹوٹنے سے ڈر لگتا ہے تھامے ہوئے ہے کوئی، اس احساس سے میں ہوں سرشار جاناں زندگی نے پیا ہے جام موت کے ہاتھوں سے نہیں کر سکتی یہ اسے فراموش جاناں میں جانتی ہوں میری آہ پے تم ٹوٹ جاؤ گے میں اپنے صحراؤں میں کس کے کے سنگ چلوں جاناں- (ٹھنڈے گرم پانی) ...