میرے بزرگوں کے نام
Sep2,2008.
مجھے بچپن لوٹا دو،
میری معصومیت، میری ہستی،
مجھے لوٹا دو-
تھا رشک کس قدر ان دراز قد سراپوں پہ مگر
مجھے میرا ننھا وجود لوٹا دو-
علم، شعور، فہم کے بعد
میں نے فصاحت سیکھ لی ہے مگر
مجھے میری نادانی، وہ صاف گوئی لوٹا دو
ہے جوانی اپنے سحر میں مبتلامگر
اے میرے ملک کے بزرگو!
دعا کرو میرا بچپن لوٹنے کی
پھر شاید تم مجھے اپنے سائے میں جگہ دے دو-
مجھے اس عمر سے شکایت ہے کہ
جب سے دو قدم چلنا سیکھا ہے
میرے گرنے پر
میرے بڑوں نے مجھے
کبھی معاف نہیں کیا
کبھی جو میری معصوم، سادہ باتوں پر ہنستے تھے
میری صاف گوئی پر اب
انہوں نے مجھے درگزر نہیں کیا-
ڈرا دیا ہے اپنے پر شکن چہروں سے انہوں نے مجھے
محروم کر دیا اپنے آتش کدہ کی حرارت سے مجھے
جانے کیوں!
میرے اساتزہ، کئی رشتے، دنیا کے کاروبار میں بکھرے ہوئے لوگ
ہر بزرگ چہرے میں مجھے تلاش ہے
اک مسکراہٹ کی
وہ چہرے کی سختی، آنکھوں کی سرذنش، تجربے کی عیاری سے
مجھے لوٹا دیتے ہیں
شاید ان میں چھپا ہے کوئی ڈر کہیں
یا انہوں نے مجھے معاف نہیں کیا-
( ٹھنڈے گرم پانی)
متبسم
Comments
Post a Comment